Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -میرا بچہ قسط3


 میرا بچہ
 از مشتاق احمد
قسط نمبر3

ڈاکو سیف کے پاس گئے۔ ہم تمہاری مدد کریں گے۔سیف بہت خوش ہوا۔
 ہم بہت رقم دیں گے بس ہمیں ہمارا بچہ مل جائے۔
 وہ ڈاکو اس میرا آتما کے بچے کو واپس لے اے اور سیف کو بولا "کل ہم اس بچے کو ساتھ لے کر اس جگہ جایں گے اور آتما سے تمہارا بچہ واپس لے آہیں گے۔
 سب خوش تھے ڈاکو رقم کی وجہ سے اور سیف بچہ کے ملنے کی امید پر۔
 ٹائم پر ڈاکو بچہ لے اے اور بچہ کو بولا کہ جب ہم ادھر جایں تو تم نے پکارنا ہے ماں میں آپ کا بیٹا آ گیا ہوں۔ 
بچہ کو ڈاکوؤں نے بتایا کہ ادھر تمہاری امی ہے۔ساتھ  سیف اور ماديہ بھی تھے۔
 وہ کچھ فاصلہ پر رک گئے اور بچے کو کہا کہ آواز لگاؤ۔ 
بچے نے چلانا شروع کر دیا ماں میں تمہارا بیٹا آ گیا ہوں۔
 آدھا گھنٹہ گزر گیا میرا آتما نہ آیی۔ مادیہ رونے لگی۔
 سب حیران تھے کہ ہر روز آتی ہے آج کیوں نہیں آیی۔ 
سیف بھیا۔۔۔۔۔ وہ تمہارا بچہ لے گئی۔ تم اسکا بچہ لے لو بدلہ میں۔
 اسکا بھی کوئی نہیں۔
 نیکی بھی ہے اور بچہ بھی سمجھ لو اسکو اپنا۔ 
بچہ پکار پکار کر رونے لگا تھا۔ 
مت رو بیٹا۔ میں تمہاری ماں ہوں۔مادیہ دکھ سے بولی۔ 
 چلو گھر جاتے ہیں۔ یوں سیف نے ڈاکوؤں کو رقم دی اور گھر واپس آ گئے۔
 انہوں نے اسی بچہ کو اپنا مان لیا تھا۔
 دوسری طرف میرا کی آتما بچہ لے کر اپنے ٹھکانے پر پہنچی۔ 
بچی اس کے بازو میں تھی چپ تھی۔ جب اسنے بچی کو نیچے لٹایا وہ رونے لگی جب اٹھایا تو چپ کر گئی۔ 
میرا پریشان ہوئی۔
 اسنے تو بدلہ میں بچی کو اٹھایا تھا۔ اب میرا آتما اسکو اٹھاے ہوئی تھی۔ 
اسکو بھوک لگی ہوگی مجہے بندوبست کرنا ہوگا۔
 تھوڑی دیر بعد وہ فیڈر سے بچی کو دودھ پلا رہی تھی۔ بچی دودھ پی کر سو گئی۔
 میرا کو بچی سے پیار ہو رہا تھا۔
 اگلا دن بھی اسکا بچی کے خیال میں گزر گیا۔ 
اگلے دن وہ گاؤں نہیں گئی بس بچی کو پیار کرتی رہی۔
 یہ اب میری ہے میں کسی کو نہیں دوں گی۔
 اسکا نام کیا رکھوں؟
خوش تھی میرا۔
 بچی بہت پیاری تھی۔
آسمان سے اتری پری ہو جیسے۔
 دودھ جیسا رنگ ،شربتی آنکھیں بڑی بڑی، اسکا نام مالا ٹھیک ہے۔ ملائی جیسی پیاری سی ہے۔
 میری بیٹی ہے۔ ہنس رہی تھی۔ ہاتھوں میں لئے چوم رہی تھی۔ 
میرا بیٹا کبھی تو مل جائے گا مجہے۔
 میرا جو کہ اب آتما تھی اسکی دوست بن گئی تھیں کچھ روحیں۔
وہ جب میرا کے پاس آہیں۔
 ارے میرا یہ بچی کون ہے؟
 میری بیٹی ہے۔
 تمہارا تو بیٹا تھا ایک بولی۔ وہ ظالم انسانوں نے چھین لیا مجھ سے۔ میں نے ان انسانوں سے یہ بچی چھین لی۔ 
اب یہ میری ہے۔
 ہمارے ساتھ چلو جہاں ہم سب رہتی ہیں۔اب چھوڑو اس گاؤں کو۔
 میرا سوچنے لگی۔ 
سوچنا نہیں ہے چلنا ہے۔ہنس کر بولیں پھر وہ سب میرا کو لے گیں۔
 وہ دونوں بچے کو گھر لے اے تھے۔ 
سیف جو نام ہم نے سوچا تھا بیٹے کا وہی رکھتے ہیں۔مادیہ نے پوچھا۔ 
ساحر ہے اب اسکا نام۔دونوں خوش تھے ۔
میرا کافی سندر تھی بیٹا بھی شکل کے لحاظ سے ماں پر تھا۔
سیف اور مادیہ دونوں اس بچے سے پیار کرنے لگے تھے۔ اب وہی انکا بیٹا تھا۔ 
انہوں نے ساحر کو اسکول میں داخل کرا دیا تھا۔
۔ساحر بہت زہین تھا اسکی آنکھوں کی چمک اور انداز ہی بتاتا تھا۔
ایک دن کے بعد۔۔۔۔۔
 میرا تم آتماوں میں ایک انسان کو کیسے رکھو گی۔ یہاں تو نیک بھی ہیں اور خطرناک بھی۔
اس کی دوست تارہ پریشان تھی۔ 
ساتھ والا  علاقہ تو ہے بھی بھوت پریت کا۔
بچی کو کوئی مار نہ ڈالے یا کچھ اور غلط ہو نہ جائے۔ 
میرا کو اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔ 
یہ تو انسان تھی اسکی ضرورتیں بھی تو تھیں پڑھنا اور بہت کچھ۔ 
تارہ مجہے بتاؤ میں کیا کروں میں اس کے بنا نہیں رہ سکتی اب۔میرا پریشان تھی۔ 
 یہاں سے جاتے ہیں ہم دونوں۔ شہر میں انسانوں کے بھیس میں رہیں گے۔
 میرا کو یہ بات اچھی لگی۔
 پھر وہ شہر میں آہیں۔ انسانی شکل میں اور یہاں آ کر ایک گھر کرایہ پر لے لیا۔ 
وہ تو کہیں بھی رہ لیتیں پر اپنی پیاری بیٹی کے لئے میرا کو مسلہ بنتا۔ 
آخر وہ اپنے پرانے روپ میں تھی آج اور ساتھ تارہ بھی۔ 
آج جب میرا اپنی انسانی صورت میں آیی تو اسکو اپنا شوہر بوٹا بہت یاد آیا۔ 
کاش ہم سب پہلے جیسے ہوتے۔ روئی بھی پر تارہ اسکو بہلاتی رہی۔
 اب وہ ٹھیک تھی اور کھیل رہی تھی بیٹی کے ساتھ۔

   0
0 Comments